عمران خان سب سے الگ اور بہتر کیوں ؟ |ٹرو بلاگ
اگر ٹرو جرنلزم اپنی ناقص ریسرچ کی روشنی میں ابھی تک کی ملکی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالے تو 4 مرکزی کردار سامنے آتے ہیں۔ جن میں پہلا نام ذوالفقار علی بھٹو کا ہے۔ اسکے بعد بینظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان ہیں۔اور اگر غیر جانبدرانہ طور پر ان چاروں کی شخصیت کاجائزہ لیں
تو عمران خان نمایاں طور پر سب سے بہتر اور غیر روائتی لگتے ہیں۔ کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں۔
تشخص
انسان سب سے پہلے اپنی پہچان چاہتا ہے۔ دنیا میں ہماری پہچان بطور پاکستانی ہے۔ جبکہ پاکستان کلمے کی بنیاد پر معرض وجو د میں آیا۔چاروں کرداروں میں بھٹو نے اس کلمے کی بنیاد پر پوری اسلامی دنیا کو اکٹھا کرنیکی سوچ کو اپنایا۔یہی سوچ اسکا جرم بن گیا۔اسکے بعد انکی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو نے اس سوچ کو پروان چڑھانے میں کوئی عملی کردار ادا نہیں کیا۔ نواز شریف بھی عملی طور پر لاتعلق نظرآئے۔عمران خان نے اس سوچ کو نئی جہتیں دیں۔ پوری دنیا کو باور کروایا کہ ناموس رسالت پر کوئی سمجھوتہ نہ کرینگے۔ اسلامی دنیا کو ایک مرکز پر لانے کے لئے اپنی سی کوشش کی۔ بھٹو کیطرح عمران خان کایہ عمل بھی اسکا سب سے بڑا جرم بن گیا۔
دوراندیش
بھٹو کی دوراندیشی کے سب گرویدہ ہیں۔71 کی جنگ/ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کےبعد تباہ حال ملک کو آئین دیکر مضبوط بنیادفراہم کی۔ مسلم ممالک سے ہنگامی بنیادوں پر بات کرکے لوگوں کو روزگار کےلئے باہر بھیجا۔ آج ماہانہ2 ارب ڈالرز کی ترسیلات زر کا سہرہ یقیننا بھٹو کے سرہے۔لیکن بینظیر اور نوازشریف نے اپنے دونوں ادوار میں ریکوڈک/ تھر کے ذخائر کو قابل عمل بناکر ملک کو مضبوط کرنیکی بجائےکوئلے/گیس کے پلانٹس لگائے۔ جسکی وجہ سے آج ملک گردشی قرضوں کی دلدل میں پھنس گیا ہے۔ دونوں نے ڈیمز بنانیکی طرف بالکل توجہ نہ دی۔ عمران خان نے ریکوڈک کے معاملے کو بہترین طریقے سے ہینڈل کیا۔ ڈیمز کی تعمیر کے لئے انقلابی کام کئے تاکہ پانی کی کمی دور کرنے کے ساتھ ساتھ سستی بجلی کا حصول بھی ممکن بنایاجائے۔. موسمی تغیرات کے نقصانات سے آگاہی کےلیے دنیا بھر کو متوجہ رکھا۔
دفاع
بھٹو نے71 کی جنگ کی تباہی کے اثرات کے تناظر میں ملک کو ناقابل تسخیر بنانیکا پروگرام شروع کرکے بہترین حکمت عملی کا مظاہرہ کیا۔ نوازشریف نے اسکو عملی جامہ پہنایا۔عمران خان نے دشمن کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ حکمران کوئی بھی ہو دفاعی حکمت عملی میں ہمیشہ تسلسل رہا ہے۔
ڈپلومیسی
بھٹوبیک ڈور ڈپلومیسی کے ماسٹرسمجھےجاتےتھے۔ معاہدہ تاشقنداسکی روشن دلیل ہے۔ بےنظیر اچھے ڈائیلاگ کرلیتی تھیں۔نوازشریف مدمقابل کو قائل کرنےمیں ہمیشہ کمزور رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ خامی مزید نمایاں ہوتی رہی ہے۔
عمران خان نے افغان پالیسی میں امریکہ کو مجبور کیا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرئے۔ جن ملکوں کے دورئے کئے وہاں قید پاکستانیوں کے حقوق کی کامیاب جنگ لڑی۔ اقوام متحدہ کو مجبور کیا کہ وہ اسلاموفوبیا کا دن مقررکرئے۔ سری لنکا کو مجبور کیاکہ مسلمانوں کو دفنانے کا قانون پاس کرئے۔ نظریاتی
نظریہ اگر عقیدے کے دائرے میں ہو تو کامیابی یقینی ہے۔ بھٹو کیمونسٹ نظرئے کا حامی تھا اس لئے تمام کاروبار حکومتی کنٹرول میں لینے کی پالیسی بری طرح ناکام رہی۔چونکہ بے نظیر موروثی سیاست کی پیداوار تھیں اس لئے والد کےنظرئے کا پرچار کرتی رہیں۔ نوازشریف کسی زاوئے سےنظریاتی نظر نہیں آتے۔عمران خان نے اسلامی نظریات کا پرچار کیا۔ واضح دلائل اور حقائق کی روشنی میں دنیا اور عوام کو ریاست مدینہ کے زریں اصولوں سے روشناس کروایا۔ اور باور کروایا کہ مسلمانوں کی کامیابی ان اصولوں کی پاسداری میں ہی ہے۔
آئیڈلوجی
بھٹو چونکہ کیمونزم سے متاثر تھے اس لئے واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسلامی افکار سے نابلد تھے۔ بینظیر انہی افکار کی پاسداری کرتی رہیں۔ نواز شریف نے آج تک آئیڈلزم کے بارئے میں واضح رائے نہیں دی اس لئے انکے بارئے میں کچھ کہنا ممکن نہیں کہ وہ کیا ہیں۔ عمران خان نے اپنی ہر تقریرمیں واضح کیا ہے کہ انکے آئیڈیل کائنات کی سب سے معتبر ہستی خاتم النبئین حضرت محمد ہیں۔ اس لئے ہر بات حقیقی معنوں میں بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ یقیننا یہی پہلو انکی کامیابی اور مقبولیت کا ستون ہے۔
سیاسی بصیرت
بھٹو کی سیاسی اپروچ میں یگانگت سے کسی کو انکار نہیں۔سب تسلیم کرتے ہیں کہ وہ قائداعظم کے بعد پہلی ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے سیاسی لحاظ سے خود کو اتنا منظم کیا کہ سب سے نمایاں نظر آنے لگے۔ البتہ وہ موروثی سیاست کی ایسی داغ بیل ڈال گئے جس نے آج پاکستانی سیاست کو پراگندہ کردیاہے۔نواز شریف کی سیاسی بصیرت کبھی بھی یگانہ نہیں رہی۔ نوئے کی دہائی میں جہاں پوری دنیا سیاسی استحکام کی جانب راغب تھی۔ نوازشریف اور بینظیر نے روائتی سیاست کے داو پیج لگا لگا کے ملک کی جڑیں کھوکھلی کردیں۔اسی دور میں بنگلہ دیش سیاسی لحاظ سے بالغ ہوگیا اور آج ہم سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔عمران خان موروثی سیاست کے مخالف ہیں۔ اورابھی تک کے حالات بتاتے ہیں کہ انکا سیاسی جانشین پارٹی میں سے ہی کوئی ہوگا۔ جبکہ دوسری دونوں بڑی پارٹیاں روائتی اور موورثی سیاست سے نکلنے کو تیار نہیں۔
فیصلہ سازی
لیڈر کی بروقت درست فیصلہ سازی کی قوت ہی اسے ممتاز کرتی ہے۔ بھٹو کی یہ خاصیت تھی کہ وہ کم وقت میں بہترین فیصلہ کرلیتے تھے۔ بینظیر چونکہ والد سے بہت کچھ سیکھ چکی تھیں اس لئے انکی اپروچ بھی کم وقت میں فیصلہ کرنا تھی۔نوازشریف کے بارئے انکے قریبی اکثر بتاتے ہیں کہ وہ فیصلہ کرنے میں بہت کمزور ہیں۔ ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کرنے میں انہوں نے بہت حیل وحجت کا مظاہرہ کیا۔ جب گزشتہ دہائی میں وہ واحد مقبول سیاسی لیڈر تھے تو انہوں نے نئے رحجانات کے تناظر میں فیصلے کرنے کی بجائے روائتی طریقہ کار اپنائے رکھا۔ عمران خان نے انوکھے اور منفرد فیصلوں کی بنا پراپنی پہچان بنائ۔ دنیا میں نئی جہتیں اپنانے کا رواج ہے۔ عمران خان نے تمام پہلووں کو مدنظر رکھتے ہوئے پرانے/ بوسیدہ قوانین کو بدلنے کی عملی کوشش کی۔افغانستان کے مسئلے پر واضح فیصلہ سازی کی۔ کرونا جیسی عالمی وبا میں بھی دباو کے بغیر فیصلے کئے جسکی وجہ سےملک بڑے نقصان سے محفوظ رہا۔
بہادر
بھٹو کی بہادری ہے کہ وہ اس دور میں بے باک تھا جب میڈیا برائےنام تھا۔ بے باک فیصلےکئے۔نوازشریف اور بینظیر روائتی طریقوں سے ایک دوسرئے کو نیچا دکھانے کےسب حربے آزمانے میں لگے رہے۔اداروں کو بہتر کرنے کےلئے عملی اقدامات کرنیکی بجائے مافیاازم کو پروان چڑھایا۔ وقت پڑھنے پر انہی مافیاز کا سہارا لیکر حریف کو چت کرجاتے۔چناچہ ملک کے ادارئے اتنے کمزور ہوگئے کہ ٹیکس ریونیو جو کسبی بھی ملک کی ترقی کا ضامن سمجھا جاتا ہے کبھی بھی اپنا ہدف حاصل نہ کرسکا۔کرپش کا کلچر عام ہوگیا۔ قرضے لیکر کر بجٹ تیارکرلیا جاتا۔عمران خان نے تمام قسم کے مافیاز کے خلاف عملی کوششیں کیں۔ تعلیم جیسے شعبےکو بھی مافیا سے پاک کرنیکی کوشش کی۔ کرپشن کےخاتمے کےلئے علم بلند کیالیکن مافیازاور مفاد پرست سیاستدانوں نے ملکر عمران خان کر چت کردیا۔
تبلیغ
لیڈر کا کام قوم کی تبلیغ بھی ہے۔ بھٹو نے قومی سوچ کے بیج بوئےاور پھر انکی آبیاری کی۔قوم کو آزادی کے بعد پہلی مرتبہ منزل کا تعین کیا۔لیکن 90 کی دہائی کی موروثی سیاست نے سارئے کئےکرائے پر پانی پھیر دیا۔ سب ڈنگ ٹپاو پالیسی کے رنگ میں ڈھل گئے۔عمران خان نےمنقطع ہوجانےوالے اس سلسلے کوبحال کیا۔اقبال کے فلسفہ خودی کی روشنی میں قوم کو منزل کی راہ بتائی۔معاشرتی اور اقتدارکی برائیوں کے بارئے میں آگاہی دی۔ قوم اس قابل ہونا شروع ہوگئی ہے کہ غلطیوں کا ادراک کرنا چاہتی ہے۔ سب کچھ بھول کر آگے بڑھنا چاہتی ہے۔
غریب کی فکر
بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاکر نچلے طبقے میں مقبولیت حاصل کی لیکن عملی طور پر یہ نعرہ آج بھی شرمندہ تعبیر ہونیکی راہ تک رہاہے۔ نوازشریف نے ہمیشہ کاروباری طبقےکی ضروریات کا خیال رکھا۔عمران خان سیاسی سفر سے پہلے ہی انسانسیت کی خدمت میں خود کو منوا چکا تھا۔ اقتدار میں آکر سب سے زیادہ غریب کی فکر کی۔ لنگر خانوں اور قیام گاہوں کےقیام سے عملیطور پر ثابت کیاکہ انکا ریاست مدینہ جیسی فلاحی ریاست کا نعرہ محض نعرہ نہیں تھا۔تباہ حال معیشت کے باوجود یہ کام کرنا آسان نہ تھا۔صحت انصاف کارڈز منصوبے نے عمران خان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
طرز سیاست
بھٹو پاکستان کی طرز سیاست میں ایک درسگاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن اس درسگاہ سے بینظیر نے روائتی سیاست کو پروان چڑھایا۔ نواز شریف نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔مفادات کے لئے دونوں ہر اصول کو پیروں تلے رھوندتے رہے۔ عمران خان نے سب سے منفرد طرز سیاست سے پہچان بنائی۔ اپنی ہی پارٹی سے ان لوگوں کو نکال دیا جنہوں نے چھانگا مانگا کی سیاست کا سہارا لیا۔ضمیر بیچنے والوں کو عبرتناک قانونی شکست دی۔ملک میں سیاسی استحکام کی خاطر دو صوبوں کی حکومت چھوڑدی۔ جبکہ تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی۔ دوسرئے سیاستدان اقتدارسے ہٹتے ہی ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ وہیں عمران خان نے ملک میں رہ کر مشکل حالات کا ڈٹ کا مقابلہ کیا۔ عوام نے اسی عمل کو دیکھتے ہوئے عمران خان کو آج پاکستان کی تاریخ کا سب سے کامیاب سیاستدان بنا دیاہے۔ کوئی پروگرام، کوئی محفل، کوئی جگہ اسکے ذکر سے خالی نہیں۔
Latest posts by True Journalizm (see all)
- حکومت عمران خان دور کا اہم منصوبہ بحال کرنے پر مجبور - February 26, 2023
- عمران خان سب سے الگ اور بہتر کیوں ؟ |ٹرو بلاگ - February 4, 2023
- حکومت پنجاب کا صحراء چولستان کو قابل کاشت بنانے کا منصوبہ |جبلی ویوز - October 15, 2022